رمیزہ کا پتلا نذر آتش کرتے ہوئے فرخ سعید خواجہ سابق چیف رپورٹر نوائے وقت لاہور کی ایک یاد گار تصویر, مرحوم کے بقایا جات 70 لاکھ کے قریب بنتے تھے مگر ان کی سال ہا سال کی ادارہ نوائے وقت کے لیے خدمات اور نوائے وقت کا نام اقتدار کے ایوانوں میں سرخرو کرنے کے عوض ان کا جائز حق ہڑپ کر کے رمیزہ نے اپنا کلرک ان کے گھر اور ہسپتال بجھوایا اور صرف 18 لاکھ دینے پر تیار تھی، اربوں روپے منی لانڈرنگ کروڑوں آمدن سے کاروبار کرنے والی خاتون رمیزہ ان کے ہاتھ سے لکھی ایک تحریر کی قیمت ادا نہیں کر سکتی کیونکہ اس رمیزہ کا صحافت سے دور دور کا تعلق واسطہ تک نہیں خواجہ صاحب اور پاکستان بھر کے متاثرین نوائے وقت جو وفات پا چکے یہ سب شہید نوائے وقت ہیں ان کا حساب انشاءاللہ ہم لیں گے اور ضرور لیں گے #savenawaiwaqt #arrestrameeza
خواج فرخ سعید متاثرین نوائے وقت کی تواناآواز تھے۔وہ ہمارے مربی، ہماے لئے مشعل راہ اورروشن مینارہ تھے۔۔ظلم کو ظلم کہنے کی پاداش میں نوائے وقت انتظامیہ کے عتاب کا شکارہوئے ان پر ان کے تین ساتھیوں سمیت مقدمہ قائم ہوا قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں۔وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلاتھے۔لیکن کبھی ظالموں اورغاصبوں سے رحم کی بھیک نہیں مانگی اپنے اصول پر ڈٹے رہے اورمرتے دم تک مقدمہ کا سامناکیا۔وہ محترم مجید نظامی کے تربیت یافتہ تھے بھلا وہ کیسے کسی لے پالک کے آگے سرنگوں ہوتے۔؟ وہ بستر مرگ پر بھی واجبات سے محروم رہے بالآخر اپنی فریادلے کر اپنے اللہ کے سامنے پیش ہوگئے۔ میری ان سے آخری ملاقات تقریباڈیڑھ سال قبل کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی جب وہ کراچی آئے تھے۔متاثرین نوائے وقت کراچی کی سرگرمیوں کوخوب سراہااورمیرے کاندھے ہاتھ رکھ کہا ڈٹے رہو۔بہت زیادہ تو نہیں لیکن میں جب کبھی دھرنا،احتجاج ،عدالتی جنگ کے دوران پریشان ہوتایاگبھراہٹ محسوس ہوتی تو کراچی میں کئی سینئرز کی طرح انہیں بھی فون کرتا مشورے لیتا۔وہ دم توڑتے انسان میں زندگی کی لہرپیداکرنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے حوصلہ دیتے اورکہتے شاکر اگرہم حق پر ہیں فتح ہمارامقدرہوگی۔
رب کریم انہیں فانی زندگی کی طرح دائمی حیات میں بھی سرخرو فرمائے، روزقیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جام کوثر اورشفاعت کو حقداربنائے اوران کے لواحقین کویہ یہ صدمہ برداشت کرنے ہمت وحوصلہ دے۔آمین
سنئیر صحافی لاہور پریس کلب کے لائف ممبر خواجہ فرخ سعید کی رسم قل انکی رہائش گاہ 555 نیلم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں بروز سوموار 17 اکتوبر 2022 بعدازنماز عصر ادا کیجائیںگی دعا قبل از نماز مغرب ہوگی۔تمام احباب سے شرکت و دعا کی استدعا ہے۔
رابطہ نمبر :
03008475227 خواجہ سعد فرخ 0321875227 0322 4763227خواجہ سرمد فرخ 03214137770
پاکستان کےمیڈیا ورکرز،صحافیوں کو مبارکباد،طویل انتظار کے بعد آئی ٹی این ای کے چیرمین کا تقرر،لیبرلاز پرعبور رکھنے والے ممتاز قانون دان شاہد کھوکھر کا نوٹیفیکیشن جاری، پی ایف یو جے کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرنے پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا شکریہ۔
امریزخان صاحب
جس معاشرے میں قاضی کی صرف تعیناتی پر مبارکبادیں دی جاتی ہوں وہاں پر انصاف کا کیا حشر ہو گا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال صحافی قیادت جس میں ارشد انصاری کا نام سر فہرست ہے میں ان کوششوں کو سراہتا ہوں۔ کہ گزشتہ پندرہ دنوں سے میں نے جب بھی ارشد انصاری کو فون کیا تو انہوں یہی کہا خان صاحب اسلام آباد آیا ہوا ہوں تنظیمی ذمہ داریوں کے سلسلے میں۔ دو دن پہلے جب آخری دفعہ میری بات ہوئی تو ارشد انصاری بہت پراعتماد لہجے میں کہنے لگا خان صاحب دو دن صبر کرو آئی ٹی این ای کے جج کے حوالے سے خوشخبری دوں گا۔ آج صبح اٹھ کے واٹس ایپ دیکھا تو خوشخبری مل گئی۔ ارشد انصاری ویل ڈن
Nawaiwaqt
workers Protesting against MD Nawaiwaqt Rameeza due to non paying their
dues from last three years. protesters demanding PM to take action
against media owners mafia and appoint ITNE judge. They further demanded
from the federal govenment to stop paying amont of Govt adds untill
their dues not cleared.they further prayed the Cheif Justice of Pakistan should take SUO MOTO to deliver justice of innocent workers who are facing hardships.
PUFJ Leaders Addressing Media persons infront of Lahore Press Club.
لاہور(پریس ریلیز)11 اکتوبر2022 پنجا ب یونیں آف جرنلسٹس کے صدرابراہیم لکی ،جنرل سیکرٹری خاوربیگ وایگزیکٹوکونسل نے ”روزنامہ بول “ کے ایڈیٹران چیف عابدعبداللہ، ”روزنامہ پاکستان” کے چیف , ایڈیٹرمجیب الرحمن شامی ،روزنامہ نوائے وقتThe Nation / کی سربراہ /ایڈیٹرمحترمہ رمیزہ مجید نظامی اورجنگ گروپ کی انتظامیہ کی جانب سے ملازمین کوتنخواہوں اوربقایاجات کی ادائیگی نہ کرنے پراحتجاج کی کال دیدی ہے ،احتجاج کل 12اکتوبربروزبدھ 4بجے سہ پہرلاہورپریس کلب کے باہرکیاجائے گا۔ اپنے ایک بیان میں صدرابراہیم لکی اورجنرل سیکرٹری خاوربیگ نے ”روزنامہ بول “ کے ایڈیٹران چیف عابد عبداللہ کے رویے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بول انتظامیہ نے متعدد بارتنخواہوںکی ادائیگی کیلئے بات چیت کی جس کے لئے ان کی درخواست پر واجب الادا بقایاجات کی ایک فہرست بھی بجھوائی گئی تاکہ ادارے کے سابق ملازمین کیVerificationکے بعد ادائیگیوںکیلئے میکنزم بنایاجاسکے لیکن بول انتظامیہ نے راہ فراراختیارکی۔ بیان میں ”روزنامہ پاکستان “کی انتظامیہ کے رویے پربھی افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ دنیاکواخلاقی درس دینے والے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی خود ملازمین کے حقوق دبائے بیٹھے ہوئے ہیں،جہاں تین ماہ سے ملازمین کوتنخواہوں کی ادائیگی نہیںکی جارہی ۔جبکہ روزنامہ نوائے وقت /دی نیشن کی سربراہ /ایڈیٹرمحترمہ رمیزہ مجید نظامی کی جانب سے سابق ملازمین کے واجبات ادانہ کرنے پرشدید برہمی کااظہارکیاگیا ۔جنگ گروپ کی انتظامیہ کے حوالے سے بیان میںکہاگیاکہ انہیںپہلے بھی تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں فوری طورپراداکریں مگرانتظامیہ کے کانو ں پرجوں تک نہیں رینگی۔ پی یوجے کل مذکورہ بالا اداروں کی بے حسی کیخلاف بھرپوراحتجاج کریگی ،اگرن اداروںنے ملازمین کی تنخواہیں ادانہ کیں تومختلف آپشنز پرغورکیلئے صحافی برادری اوردیگرصحافتی تنظیموں سے مذید مشاورت کے بعد فائنل حکمت کااعلان کریںگے جوہمارا آئینی وقانونی حق ہے ۔ دوستوں سے احتجاج میںشرکت کی خاص گذارش ہے۔ جاری کردہ خاوربیگ جنرل سیکرٹری
اج 10 اکتوبر بروز پیر متاثرین نوائے وقت گروپ لاہور نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور کے باہر اپنے واجبات کے حق میں مظاہرہ کیا مظاہرے سے قبل ایکشن کمیٹی کے تین رکنی وفد نے چیئرپرسن فرزانہ چوہدری کی قیادت میں ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی شفقت عباس سے ملاقات کی اس موقع پر وفد نے ڈی جی کو اپنے مطالبات اور نوائے وقت انتظامیہ کی ہٹ دھرمی سے اگاہ کیا جس پر ڈی جی نے متاثرین کی داد رسی کرتے ہوئے ان کے مطالبات پی آئی ڈی اسلام آباد آفس تک پہنچانے اور مکمل تعاون کی یقین دھانی کرائی بعد ازاں متاثرین نوائے وقت کے ممبران نے پی ائی ڈی افس کے باہر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق اور نوائے وقت انتظامیہ کیخلاف نعرے بازی کی
مظاہرے سے امریز خان صاحب ،ریاض بھٹی صاحب اور فرزانہ چوہدری نے خطاب کیا انہوں نے نوائے وقت انتظامیہ ،رمیزہ نظامی اور حکومت وقت کی بے حسی کا ذکر کرتے ہوئے فوری انصاف کا مطالبہ کیا ۔ اس موقع پر آئی ٹی این ای کے چیئر مین کی فوری تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا ۔مظاہرے کے شرکاء نے اس موقع پر لے پالک رمیزہ نظامی اور نوائے وقت انتظامیہ کیخلاف نعرے بازی بھی کی ۔
محترم ساتھیو، دفتر کے حالات کی بات (مالکان اور ملازمین) کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو اپنی رائے دینا چاہوں گا ابتدائی عرصے میں مالکان بھی اچھے تھے، ملازمین بھی دل و جان سے محنت کرتے تھے، گرمی ہو یا سردی، طوفانی بارشوں والا موسم ہو ہر بندہ وقت پر دفتر آتا تھا، مالک بھی بروقت تنخواہ دیتے تھے، ادارے کی بھی عزت تھی، ملازمین ادارے میں کام کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ مالک بدلنے پر سب کچھ بدل گیا، ہر چیز کا معیار پیسہ ہی بن گیا، ملازمین اپنی تنخواہ لینے کے لیے بڑی مجبوریاں بتاتے، انھی مجبوریوں کو لیے دارِ فانی سے رخصت ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے میں نے۔ پہلے یہاں محصور بنگلہ دیش فنڈ قائم تھا، زلزلہ زدگان کے لیے بھی لوگ ادارے کو فنڈ جمع کرواتے تھے، انھیں یقین تھا کہ اُن کی جمع کروائی ہوئی امانتیں حق داران کو ملے گی۔ پہلے بھی یہی ادارہ تھا، یہی ملازمین تھے صرف مالک ہی بدلا تھا ظلم کا دور بہت قلیل ہوتا ہے، زیادہ گزر گیا ہے تھوڑا باقی ہے (حکم اللہ، ملک اللہ)
جناب شعیب مرزا صاحب، اللہ تعالیٰ آپ کو ڈھیروں برکتیں عطا فرمائیں، آپ نے بڑی محنت کی ہے، آپ کو یقیناً اس کا اللہ کی جانب سے اجر ملے گا۔
میں نے بڑے ادب اور خلوص سے چند گزارشات ذاتی طور پر پیش کی تھیں میں نے ادارے میں 20 سال کام کے دوران کسی کولیگ تو دور کی بات کسی سیکورٹی گارڈ، ناءیب قاصد حتی١ کہ کسی سویپر سے بھی بدتمیزی یا غصے سے بات نہیں کی رہی بات اعظم بدر کی تو ادارے میں جتنی بدعنوانی اعظم بدر اور تین چار اور لوگوں نے کی ہے اور کروڑوں کی جاءیدادیں بناءی ہیں ان کو بھی میں نے آپ کی صفوں میں دیکھا تھا تو حیرت ہوءی تھی اس لیے اعظم بدر کا زکر آگیا باقیوں کو آپ بھی جانتے ہیں جو مجھے جواب دینے پر آپ کو شاباش بھی دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم بھیک نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں وہ یہ بھی بتاءیں کہ جو لاکھوں کروڑوں روپیہ انہوں نے ناجائز کمایا وہ کس کا حق تھا کیا وہ واپس کرینگے تاکہ چند لوگوں کے واجبات دیے جا سکیں اعظم بدر نے ادارے سے کروڑوں کا فراڈ کیا زاتی طور مجھے جو نقصانات پہنچاءے ان کی تفصیل طویل ہے کیونکہ میں نے پھول کے صفحات برھانے کے لیے نظامی صاحب کو جو درخواست دی تھی اس میں پلیٹس، پیپر، پرنٹنگ کے ریٹ بھی لکھے تھے جبکہ یہ اس مد میں لمبے فراڈ کر رہے تھے راءیل پارک میں اپنا پریس لگا کر ادارے کا میٹیریل وہاں استعمال کر رہے تھے مجھے اسی دن سے انہوں نے تھریٹ کرنا شروع کر دیا تھا میں نے نظامی صاحب کو سب ایڈیٹر رکھنے کی درخواست دی انہوں نے قبول کر کے تنخواہ بھی لکھ دی لیکن انہوں نے فاءیل نہیں نکالی اور مجھے کءی سال تک اکیلے کام کرنا پڑا میری تنخواہ میں اضافے کو روکے رکھا ایک لمبی فہرست ہے چھوڑیں آپ کی ایک دو باتوں کی وضاحت کر دوں میں نے بلکل بھی نہیں کہا کہ آپ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں میں نے یہ کہا تھا کہ انتظامیہ سے مل کر معاملہ حل کر لیں یا عدالت کے فیصلے کا انتظار کر لیں دوسری بات میں نے تو پہلے یہ کہا کہ ہم نے زندگی کے بہترین سال ادارے کو دیے اور پھر کہا کہ ادارے نے ہمیں نام اور مراعات دیں کچھ دن پہلے ادارے کے ایک دوست سے بات ہو رہی تھی اس نے بتایا کہ دو ڈھاءی سال پہلے اس نے ادارے سے ایگریمنٹ کر کے 13 لاکھ روپے لیے اور گھر کے ساتھ تین دکانیں بنا کر کرایہ پر دے دیں اب تک کءی لاکھ کرایہ آ چکا ہے اگر تاخیر کرتا تو آج اتنی مہنگائی ہو گءی ہے کہ اس رقم سے ایک دکان بھی نہ بنتی اور نہ اتنا کرایہ وصول ہو چکا ہوتا آپ نے وفات پانے والے احباب کا زکر کیا واقعی افسوسناک ہے لیکن اگر وہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ رقم وصول کر چکے ہوتے تو وہ رقم کسی کام میں لگا کر معاشی طور پر بہتر ہوتے زندگی کے آخری ایام اچھے گزار لیتے اور ان کے گھر والوں کا بھی اچھا گزارا ہو رہا ہوتا تاخیر سے نقصان ہی ہو رہا ہے میں نے پورے خلوص سے عرض کی باقی آپ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں میں آج کے بعد نہ کچھ عرض کروں گا اور نہ ہی اب کسی کی بات کا جواب در جواب دوں گا
متاثرین نوائے وقت کو مخاطب کر کے جو آپ نے تحریر لکھی وہ پڑھی بہت افسوس ہوا کہ آپ نے جس طرح اعظم بدر صاحب کے بارے میں ایک جملے سے آغاز کیا وہ آپ کی تحریر کے متعصب ہونے کی گواہی تھی۔ میں یہاں اعظم بدر کو بالکل بھی ڈیفینڈ نہیں کروں گا کیونکہ جو آپ نے الزام لگایا ہے وہ اتنا باریک ہے کہ اس پہ بحث بنتی نہیں کہ یہ خالصتا" بندے اور خدا کا معاملہ ہے جسے آپ نے اپنے ہاتھ میں لیکر اعظم صاحب کے بارے میں اپنا غصہ نکال لیا۔ اور جو معاملہ دو بندوں کے درمیان ہے (یعنی رمیزہ اور متاثرین) اس کے بارے میں آپ کا فتویٰ ہے کہ اس کو اللہ پہ چھوڑ دیا جائے۔ یہ آپ کی رائے ہے میں اس پہ زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دوسری بات جو آپ نے کی کہ ادارے کا لحاظ کریں جس نے ہمیں شناخت دی تو عرض ہے کہ اس میں دو رائے نہیں کہ ادارے نے ہمیں شناخت دی مگر یہ بھی نہ بھولیں کہ ہم نے بھی اس ادارے کو اپنی زندگی کا پرائم ٹائم دیا۔ یاد رکھیں عزتیں ملا نہیں کرتیں بلکہ کمائی جاتی ہیں۔ جس خاتون نے سینکڑوں لوگوں کی زندگی کی کمائی دبا لی ہو۔ ان کے بچے بھوکے مر رہے ہوں ان میں سے سات آٹھ لوگ اپنے حق کے انتظار میں دنیا سے چلے گئے ہوں وہ لوگ ایسی خاتون کو پھولوں کے ہار پیش کریں گے۔ میں تقریباً ہر مظاہرے میں شریک رہا ہوں اور ہم نے کوشش کی کہ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ کسی مقرر نے اگر غصے میں کوئی لفظ بول بھی دیا تو اسے باقاعدہ منع کیا گیا کہ ایسا نہ کریں۔ جس عدالت کا راستہ آپ نے ورکرز کو دکھانے کی کوشش کی ہے اس بارے میں گزارش ہے کہ گزشتہ دو سال سے وہ عدالت بند پڑی ہے یعنی انصاف بند ہے۔ انگلش کا ایک مقولہ ہے کہ justice delayed is justice denied باقی کوشش کریں گے مستقبل میں بھی شائستگی کے معاملے میں آپ سے راہنمائی لیتے رہیں۔ میرا کوئی جملہ برا لگا ہو تو پیشگی معذرت کہ میں ایک کم علم انسان ہوں
السلام علیکم میں کافی عرصے سے اس گروپ اور دیگر سوشل میڈیا پر آپ کی سرگرمیاں ملاحظہ کر رہا ہوں اس گروپ میں اعظم بدر جیسے بغیر وضو کے نماز پڑھنے اور ادرہ نواءے وقت میں کروڑوں روپے کی بد عنوانی کرنے والے دیگر لوگ موجود ہیں مجھے سب کے نام لینے کی ضرورت نہیں آپ سب ان کو جانتے ہیں آپ لوگ کبھی دفتر، کبھی رمیزہ نظامی صاحبہ کے گھر کے باہر کبھی اسمبلی ہال اور کبھی پریس کلب کے باہر مظاہرے کرتے نظر آءے. اپنے واجبات کے حصول کے لیے کوشش کرنا آپ کا حق ہے لیکن میں زاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے جو طریقہ اور زبان استعمال کی جاتی ہے وہ نا مناسب ہے آجر اور اجیر کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے کسی کو مالک بنا دیتا ہے تو کسی کو ملازم. یہ اللہ کی مصلحت اور تقسیم ہے اس لحاظ سے ادارے کے مالک یا مالکہ کا احترام ہم پر لازم ہے مالک بھی اپنے ملازمین جسے رعایا بھی کہا گیا ہے اس کے حقوق کے حوالے سے جواب دہ ہے ہم اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین سال اس ادارے کو دیے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس ادارے نے ہمارے گھریلو اخراجات، بچوں کی پرورش اور تعلیم کا وسیلہ فراہم کیا ادارے نے سالہا سال تک ہمیں بہترین ماحول اور روزگار فراہم کیا ادارہ نواءے وقت کے بارے مشہور تھا کہ یہ ایسے ہے جیسے سرکاری ادارہ جو اس میں آجاتا ہے بلا وجہ فارغ نہیں کیا جاتا وقت پر تنخواہ، بونس، عید الاوءنس، چھٹیوں کے پیسے، مینے کے درمیان آدھی ایڈوانس تنخواہ، قسطوں پر اشیاء، مختلف ضروریات پر ایڈوانس رقم یہ سب مراعات ہمیں اس ادارے سے ملتی رہی ہیں ہمیں یہ سب یاد رکھنا چاہیے کہا جاتا ہے کہ مجید نظامی صاحب کے بعد ادارے کو برباد کر دیا گیا یہ غلط ہےاگر ایسا ہوتا تو صرف نواءے وقت کے ساتھ ہوتا عمران خان کی حکومت آتے ہی میڈیا بحران شروع ہوا اخبارات کی ادائیگیاں روک دی گءیں حالات ایسے بنا دیے گئے کہ سب اخبارات اور چینلز کو بہت سا سٹاف فارغ کرنا پڑا یہ میڈیا کا اجتماعی بحران تھا ایک دم اتنے لوگوں کو فارغ کرنے کے بعد اس بحران میں سب کے واجبات کی فوری ادائیگیاں ممکن نہیں تھیں یہی بحران تھا جس کی وجہ سے آپ لوگ بھی نواءے وقت جیسے بڑے ادارے سے نکل کر اس کے مقابلے کے بڑے ادارے میں ملازمت حاصل نہیں کر سکے عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد میڈیا کے حالات کی بہتری کی امید ہے میں نے ادارے میں یہی سنا ہے اور نظر بھی آ رہا ہے کہ میڈم رمیزہ نظامی صاحبہ واجبات دینا چاہتی ہیں اختلاف صرف رقوم کے تعین کا ہے روزانہ دو چار لوگ آتے ہیں باہمی افہام و تفہیم سے معاملہ طے کیا جاتا ہے اور اور ان کو ادائیگیاں شروع ہو جاتی ہیں ایڈیٹوریل کے فضل اعوان صاحب سمیت کءی حضرات ایسے ہیں جنہوں نے کیس بھی نہیں کیے تھے ان کو بھی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور کءی کو مکمل ہو چکی ہیں ہم نے اس ادارے کا نمک کھایا ہے اس لیے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے واجبات کے حصول کے لیے باوقار طریقہ اختیار کرنا چاہیے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے میڈیا کے حالات بہتر ہو گءے تو ممکن ہے آپ دوبارہ اس ادارے سے وابسطہ ہو جاءیں اس لیے واپسی کے دروازے بھی کھلے رکھیں انتظامیہ سے مل بیٹھ کر معاملات طے کریں خود کو اور اپنے سابق ادارے کو تماشا نہ بناءیں اگر معاملات طے نہیں ہوتے تو آپ سب نے کیس کیے ہوئے ہیں تو پھر عدالتی فیصلے کا انتظار کر لیں عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی دونوں فریقین کو قابل قبول ہو گا میں آپ کے ساتھ ہوں میں نے بھی کیس کیا ہوا ہے لیکن میں آج تک کسی مظاہرے میں شریک نہیں ہوا کیونکہ میں سمجھتا ہوں جس ادارے سے میں نے 20 سال تک روزگار حاصل کیا ہے اور اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ہے اس بحران میں اس ادارے کی بدنامی کا باعث نہ بنوں مجھے انتظامیہ کی نیت پر شک نہیں افہام و تفہیم سے معاملہ حل ہو ہی جاءے گا ان شاءاللہ یہ میری گزارشات ہیں امید ہے آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے