Thursday, October 6, 2022

میڈم رمیزہ صاحبہ واجبات دینا چاہتی ہیں , حصول کے لیے باوقار طریقہ اختیار کرنا چاہیے: شعیب مرزا

 



محمد شعیب مرزا

 

السلام علیکم
میں کافی عرصے سے اس گروپ اور دیگر سوشل میڈیا پر آپ کی سرگرمیاں ملاحظہ کر رہا ہوں اس گروپ میں اعظم بدر جیسے بغیر وضو کے نماز پڑھنے اور ادرہ نواءے وقت میں کروڑوں روپے کی بد عنوانی کرنے والے دیگر
 لوگ موجود ہیں مجھے سب کے نام لینے کی ضرورت نہیں آپ سب ان کو جانتے ہیں
آپ لوگ کبھی دفتر، کبھی رمیزہ نظامی صاحبہ کے گھر کے باہر کبھی اسمبلی ہال اور کبھی پریس کلب کے باہر مظاہرے کرتے نظر آءے. اپنے واجبات کے حصول کے لیے کوشش کرنا آپ کا حق ہے لیکن میں زاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے جو طریقہ اور زبان استعمال کی جاتی ہے وہ نا مناسب ہے
آجر اور اجیر کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے کسی کو مالک بنا دیتا ہے تو کسی کو ملازم. یہ اللہ کی مصلحت اور تقسیم ہے اس لحاظ سے ادارے کے مالک یا مالکہ کا احترام ہم پر لازم ہے
مالک بھی اپنے ملازمین جسے رعایا بھی کہا گیا ہے اس کے حقوق کے حوالے سے جواب دہ ہے
ہم اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین سال اس ادارے کو دیے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس ادارے نے ہمارے گھریلو اخراجات، بچوں کی پرورش اور تعلیم کا وسیلہ فراہم کیا ادارے نے سالہا سال تک ہمیں بہترین ماحول اور روزگار فراہم کیا ادارہ نواءے وقت کے بارے مشہور تھا کہ یہ ایسے ہے جیسے سرکاری ادارہ جو اس میں آجاتا ہے بلا وجہ فارغ نہیں کیا جاتا وقت پر تنخواہ، بونس، عید الاوءنس، چھٹیوں کے پیسے، مینے کے درمیان آدھی ایڈوانس تنخواہ، قسطوں پر اشیاء، مختلف ضروریات پر ایڈوانس رقم یہ سب مراعات ہمیں اس ادارے سے ملتی رہی ہیں ہمیں یہ سب یاد رکھنا چاہیے
کہا جاتا ہے کہ مجید نظامی صاحب کے بعد ادارے کو برباد کر دیا گیا یہ غلط ہےاگر ایسا ہوتا تو صرف نواءے وقت کے ساتھ ہوتا عمران خان کی حکومت آتے ہی میڈیا بحران شروع ہوا اخبارات کی ادائیگیاں روک دی گءیں حالات ایسے بنا دیے گئے کہ سب اخبارات اور چینلز کو بہت سا سٹاف فارغ کرنا پڑا یہ میڈیا کا اجتماعی بحران تھا ایک دم اتنے لوگوں کو فارغ کرنے کے بعد اس بحران میں سب کے واجبات کی فوری ادائیگیاں ممکن نہیں تھیں
یہی بحران تھا جس کی وجہ سے آپ لوگ بھی نواءے وقت جیسے بڑے ادارے سے نکل کر اس کے مقابلے کے بڑے ادارے میں ملازمت حاصل نہیں کر سکے
عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد میڈیا کے حالات کی بہتری کی امید ہے
میں نے ادارے میں یہی سنا ہے اور نظر بھی آ رہا ہے کہ میڈم رمیزہ نظامی صاحبہ واجبات دینا چاہتی ہیں اختلاف صرف رقوم کے تعین کا ہے روزانہ دو چار لوگ آتے ہیں باہمی افہام و تفہیم سے معاملہ طے کیا جاتا ہے اور اور ان کو ادائیگیاں شروع ہو جاتی ہیں
ایڈیٹوریل کے فضل اعوان صاحب سمیت کءی حضرات ایسے ہیں جنہوں نے کیس بھی نہیں کیے تھے ان کو بھی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور کءی کو مکمل ہو چکی ہیں
ہم نے اس ادارے کا نمک کھایا ہے اس لیے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے واجبات کے حصول کے لیے باوقار طریقہ اختیار کرنا چاہیے
اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے
میڈیا کے حالات بہتر ہو گءے تو ممکن ہے آپ دوبارہ اس ادارے سے وابسطہ ہو جاءیں اس لیے واپسی کے دروازے بھی کھلے رکھیں
انتظامیہ سے مل بیٹھ کر معاملات طے کریں خود کو اور اپنے سابق ادارے کو تماشا نہ بناءیں اگر معاملات طے نہیں ہوتے تو آپ سب نے کیس کیے ہوئے ہیں تو پھر عدالتی فیصلے کا انتظار کر لیں عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی دونوں فریقین کو قابل قبول ہو گا
میں آپ کے ساتھ ہوں میں نے بھی کیس کیا ہوا ہے لیکن میں آج تک کسی مظاہرے میں شریک نہیں ہوا کیونکہ میں سمجھتا ہوں جس ادارے سے میں نے 20 سال تک روزگار حاصل کیا ہے اور اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ہے اس بحران میں اس ادارے کی بدنامی کا باعث نہ بنوں مجھے انتظامیہ کی نیت پر شک نہیں افہام و تفہیم سے معاملہ حل ہو ہی جاءے گا ان شاءاللہ
یہ میری گزارشات ہیں امید ہے آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے



No comments:

Post a Comment

حامد میر کی بے قراری

Amraiz Khan  آج ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں ملک کے ایک بڑے اور متنازعہ صحافی جناب حامد میر صاحب اپنی گرجدار آواز میں صحاف...