Saturday, May 14, 2022

شہر میں بڑھتا ہوا ظلم اور سکڑتی عدالتیں۔ نوائے متاثرین کہاں جائیں

امریز خان
 مجھےافسوس ہوتا ہے جب کوئی صحافی لیڈر صحافیوں کے حقوق کے نام پر کمیونٹی کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ  نوائے وقت کے قلم مزدور اپنے جائز حق یعنی تنخواہوں کے لئے سڑکوں پر ہیں مگر ایک آدھ کے سوا کسی کو تو فیق نہیں کہ صرف اظہار یکجہتی کے لئے ہی سہی دو منٹ مظاہرے میں شریک ہو جائیں۔ لیکن ان کو ووٹ لینے کا فن آتا ہے لوگوں کو برائب کر کے،انہیں گمراہ کر کے، مداری پن کر کے یا جھوٹے وعدے کر کے۔ کل کے مظاہرے میں تو اس وقت ظلم کی انتہا ہو گئی جب دوسری دفعہ پولیس نے اپنی تنخواہ مانگنے والے  روزنامہ نوائے وقت سے جبری برطرف قلم مزدوروں کو سڑک پر چلنے سے بھی منع کر دیا۔ واضح رہے کہ آئین پاکستان ہر شہری کو (freedom of expression and movement) کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن یہ کیسی پولیس ہے جو ایک ڈیفالٹر خاتون کو سروس دینے میں اس حد تک چلی گئی کہ اس نے نہتے قلم مزدوروں کی موومنٹ بھی محدود کر دی۔ میرے خیال میں پولیس کا یہ عمل صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہونا چاہئے لیکن یہ مرے ہوئون کا معاشرہ ہے جو مرضی کر لو۔ مزدور کی مزدوری 3 سالوں سے نہ دینے والی عورت معتبر کی معتبر ہے۔ ایسا صرف غلاموں کے معاشرے میں ممکن ہے کیونکہ ایسا نہ تو  کفر کے معاشرے میں ممکن ہے نہ کسی مسلمان معاشرے میں۔ اللہ کے رسول ص نے تو اس بارے میں بہت سخت حکم دیا ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دو۔ ادھر 3سال گزر گئے سینکڑوں کی تعداد میں نوائے وقت کے متاثرین سڑکوں پر ہیں مگر ملک میں کوئی ایسی عدالت نہیں جو ان کی بات سن لے۔ ایک برائے نام سا ٹربیونل ہے جسے آئی ٹی این ای implementation tribunal of newspapers employees  کہتے ہیں اس کا ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا جج ہی تعینآت نہیں ہو سکا۔ 

عمران نیازی نے 26 سال انصاف کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنایا پارٹی کا نام تحریک انصاف رکھا پھر 4 سال وزیر اعظم رہا لیکن بے بسی کا عالم یہ تھا کہ میڈیا مالکان سے بلیک میل ہوا اور آئی ٹی این ای کا جج نہیں لگا سکا۔ حالانکہ اس کا یہ دعوی تھا کہ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جس قدر ظلم اور ناانصافی عروج پر ہے یہاں تو عدالتوں کو 24 گھنٹے کام کرنا چاہئے لیکن یہاں بااثر لوگ اپنے مقاصد  حل کرانےکےلئے عدالتوں کو رات کو بھی کھلوا لیتے ہیں عام آدمی کی خیر ہے۔ حضرت علی ع کا فرمان ہے کہ کفر کا معاشرہ تو زندہ رہ سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ لیکن مولا کی بارگاہ میں ملتمس ہوں کہ ظلم بہت بڑھ چکا اب اس نظام کو برباد ہو جانا چاہئے کہ اپنا جائز حق مانگتے مانگتے ہمارے 4 ساتھی خدا کے حضور پیش ہو چکے اور کتنا انتظار کرنا ہو گا۔ اب ان کو بھی برباد ہونا چاہئے جو پسے ہوئے لوگوں کے بچوں کا رزق چھین کر اپنے بچوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں لیکن میرا اس بات پر مکمل ایمان ہے کہ ایسا ممکن نہیں یہ برباد ہی ہوں گے۔ میں آئی جی پولیس سے بھی گزارش کروں گا کہ اپنے ماتحتوں کو سمجھا ئیں کہ مظلوم اور پسے ہوئوں مزدوروں کے مقابلے میں  ایک ڈیفالٹر خاتون کو اس حد تک سروس نہ دیں کہ ان سے احتجاج کا حق بھی چھین لیں۔ میرے خیال میں آپ اپنی سروس کے آخری دن پورے کر رہے ہیں اور بالآخر ہر ذی روح کی طرح آپ نے بھی خدا کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اقتدار کا حساب دینا ہے۔ آئی جی صاحب ایک بات آپ ذہن نشیں کر لیں کہ اللہ کے نبی ص  معراج پے تشریف لے جارہے تھے اور یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کی سواری براق کائنات کی تیز ترین سواری تھی۔ لیکن عجب یہ ہوا کہ دوران سفر کوئی چیز آپ ص کی سواری براق کو بھی پیچھے چھوڑتی ہوئی اوپر کی طرف چلی گئی تو آپ سرکار ص نے جبرائیل ع سے پوچھا یہ کیا چیز تھی۔ انہوں نے عرض کی کہ یہ مظلوم کی آہ تھی جو براق سے بھی تیز عرش پر پہنچتی ہے۔ آخر میں میں صحافتی تنظیموں سے گزارش کروں گا کہ پولیس کے رویئے کا نوٹس لیں کہ یہ وقت کسی پے بھی آسکتا ہے۔

چلتے چلتے فراز کےدو اشعار کہ شائید میرا یہ درد تفہیم کے مراحل سے دو چار ہو سکے۔۔۔۔
 سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں

میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

 


 

 

No comments:

Post a Comment

حامد میر کی بے قراری

Amraiz Khan  آج ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں ملک کے ایک بڑے اور متنازعہ صحافی جناب حامد میر صاحب اپنی گرجدار آواز میں صحاف...