تحریر:شاکرحسین
محترم مجید نظامی پاکستانی صحافت کے محسن ومربی ہیں ان کی حیات اوربعدازمرگ ابتک ان کی صحافتی خدمات پر کسی نے پی ایچ ڈی نہیں کی۔لیکن ان کی لے پالک بیٹی رمیزہ نظامی نے جس کم عمری میں اپنے سے دگناعمر کے ایک مستحکم ادارہ نوائے وقت گروپ کا جس بے باکی اورسفاکی سے ستیاناس کیاہے۔اگر ملک میں عدل وانصاف کا بول بالاہوتا تو یقیناچند برسوں کے دوران پورے عالم میں اردوکا دوسرے بڑے اخبار کوچیتھڑے میں تبدیل کرنے پررمیزہ کو پرائڈ آف پرفارمنس ایواراڈ سے نوازاجاتا۔اور سرکاری جامعات کو ہدایت کی جاتی کہ وہ اپنے طالبعلموں رمیزہ کی خامات پر پی ایچ ڈی کرنے کی ترغیب دیں۔لیکن ہائے افسوس کے تحریک انصاف کی حکومت نے بھی رمیزہ بٹ کے ساتھ انصاف نہیں ہوااوراسے ملک کے اعلی ترین ایوارڈ سے محروم رکھاگیا۔ شنید ہے کہ موجودہ حکومت رمیزہ کو اسکاحق دینے کیلئے پرتول رہی ہے۔
ملکی آئین اورقانون کو گھر کی لونڈی بناکر خودساختہ قانون کے ذریعہ صحافیوں کی قبل از وقت 50 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ اوراس سے بڑھ کر رمیزہ نے دنیائے صحافت میں ایک اصطلاح متعارف کرائی ہے۔جس کے تحت ایڈیٹر،چیف رپورٹر،رپورٹرز،سب ایڈیٹرز اور غیرادارتی عملہ کو جبری ریٹائر کرکے بیشتر کو گھر بھیج دیااورکام چلانے کیلئے چند ایک کوpart timer k letters تھمائے گئے ہیں کراچی آفس میں گنتی کے جو چند ملازمین ہیں سب کے سب پارٹ ٹائمر ہیں آج کراچی آفس میں ایک بھی ریگولر ملازم نہیں ۔۔مقصد ملازمین کو ویج بورڈ ایوارڈ اورITNE میں کیس کرنے کے حق سے محروم رکھناہے کیونکہ پارٹ ٹائمرسے کام تو پورے آٹھ گھنٹے لئے جاتے ہیں مگروہ ادارے کا ملازم نہیں ہوتا۔لہذاوہ کسی قسم کی مراعات نہ کلیم کرسکتاہے اورنہ اس کے لئے کسی عدالت کا دروازہ کھٙکھٹا سکتاہے۔رمیزہ کی اس عقل سلیم پر صحافتی حلقے اسے دادوتحسین دے رہے ہیں۔
مذید کارنامے جو صحافت کے طالبعلموں کو رمیزہ کی خدمات پر پی ایچ ڈی کرنے پر اکسارہیں۔وہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار نوائے وقت کراچی آفس میں تین سب ایڈیٹرز سے ان میں اگر ایک چھٹی پر ہوتو دوسب ایڈیٹر کے ذریعہ صرف Name plate تبدیل کرکے تین ایڈیشن نوائے وقت کراچی ،نوائے وقت کوئٹہ اورنوائے وقت گوادر نکال کرکروڑوں کے اشتہارات پکڑ رہی ہے۔۔سرکاری اورپرائیویٹ اداروں کو بڑی دیدہ دلیری اورڈنکے کی چوٹ پر چونالگایاجارہاہے۔یہ ہنر تو پوری زندگی صحافت کی نذر کرنے والے محترم میرخلیل الرحمن ،محترم حمید نظامی ،محترم مجید نظامی سمیت صحافت کے بڑے بڑے پنڈتوں کو بھی نہیں سوجا۔تو آپ مان لیں کہ برطانوی یونیورسٹی کی گریجویٹ رمیزہ بٹ نے اپنی ذہانت سے صحافت کے نامور اوربڑے بڑے پنڈتوں کو چاروں شانے چت کیاہے ۔۔۔
توکیا خیال ہے رمیزہ بٹ کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی تو بنتی ہے ناں۔۔۔؟
اس کے علاوہ محترمہ سرکاری سرپرستی میں اپنے ملازمین پر ظلم وستم کی جو تاریخ رقم کررہی ہیں۔جس طرح ملازمین کو بھوک وافلاس سے ماراجارہے۔تیس اورچالیس برس خدمات انجام دینے والوں کو چھ چھ ماہ کی کرنٹ سلیری کے بغیر ہی چلتاکردیا۔آج وہ بوڑھے ضعیف جنہیں اب نوکری پر بھی کوئی نہیں رکھ رہا۔۔پائی پائی کے محتاج ہوئے بیٹھے ہیں۔۔۔بھائی یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔اس کے لئے آپ کا مثانہ بھی فولادی ہونا چاہئے۔ مجھے یقین ہے صحافت کا گلاگھونٹنے والی اس عورت کی زندگی میں ہی کوئی طالبعلم اس کے سیاہ کارناموں پر پی ایچ ڈی کرلےگا۔۔۔۔
Saturday, June 25, 2022
صحافت کا گلاگھونٹنے والی رمیزہ کی خدمات پر پی ایچ ڈی تو بنتی ہے ناں۔۔۔!
Monday, June 20, 2022
اسلام آبادہائی کورٹ کا ایک ہفتے میں چیئرمینITNE کی تقرری کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین آئی ٹی این ای کی تقرری میں غیرمعمولی تاخیر کے خلاف نوائے وقت کے سابق نیوزایڈیٹر حاجی احمد مجاہد ودیگر کی درخواست پروزارت اطلاعات کو چیئرمین کے لئے امیدواروں کی درخواستوں کی آج ہی اسکروٹنی کرکے ایک ہفتے میں چیئرمین ITNE نامزد کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔اس کیس کی پیروی معروف قانون دان سیداشتیاق مصطفی بخاری ایڈووکیٹ بلامعاوضہ کررہے ہیں۔واضح رہے کہ ریاست مدینہ کے نام نہاد حکمران عمران خان کے عہد میں 7مارچ 2021 کو چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے آج تک صحافیوں اورمیڈیاورکرزپر انصاف کے دروازے بندہیں۔
Freom Isllamabad, Sijad Haider said that he will meet Maryam Aurangzeb today or tomorrow and get time of meeting for all Pakistan #Mutasireenenawaiwaqt delegation on 27 or 28 June.
Saturday, June 18, 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نےحکومت کو چیئرمین آئی ٹی این ای کی تعیناتی سے متعلق چار ہفتے کی مہلت دے دی
اسلام آباد ( خصوصی نیوز رپورٹر) عدالت عالیہ نے صحافیوں کے قانونی تحفظ کے لیے وزارت اطلاعات اور صحافتی تنظیموں کو مشاورت کی ہدایت کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے میڈیا ورکرز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے وکیل عمر اعجاز گیلانی عدالت میں پیش ہوئے اور رپورٹرز کی جاب سکیورٹی، ویج بورڈ ایوارڈ نفاذ سمیت صحافیوں کو درپیش دیگر مسائل سے متعلق پٹیشن میں وضاحت کی۔ عدالتی معاون مظہر عباس ودیگر کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں پہلے ہی جمع ہو چکی تھیں۔چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے صحافتی تنظیمیں وزارت اطلاعات کے ساتھ بیٹھیں۔ عدالت نے وکیل عمر گیلانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ منتخب حکومت کے ساتھ بیٹھ کر آپ اپنے ایشوز ڈسکس کیوں نہیں کر لیتے ۔ عدالت نے چیئرمین آئی ٹی این ای کی تعیناتی سے متعلق چار ہفتے کی مہلت دے دی۔وکیل عمر اعجاز گیلانی نے عدالت سے کیس جلدی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چار سال بعد چھٹی جارہا ہوں، جلدی میں دستیاب نہیں ہوں ۔ آپ کو پتا ہے جو چھٹی نہ کرے اس کا کام متاثر ہوتا ہے میں تو چار سال بعد جا رہا ہوں ۔ بعدا زاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کردی۔ ہائیکورٹ
Monday, June 13, 2022
نوائے وقت ہائی جیکنگ کیس: رمیزہ بٹ کے ساتھ نظامی لکھتے ہوئے دل نہیں مانتا,واجبات سے محروم متعدد کارکن بد دعائیں دیتےایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان سے گزر گئے, سعید خاور
نوائے وقت کراچی کے سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر، کہنہ مشق صحافی، معروف قلمکار اور ان سب سے بڑھ کر انسان دوست شخصیت محترم سعید خاور کے قلم سے ۔۔۔۔
رمیزہ (بٹ) صاحبہ کے ساتھ نظامی لکھتے ہوئے دل نہیں مانتا- مجید نظامی صاحب بعض انسانی کمزوریوں اور شخصی خامیوں کے باوجود ایک مناسب ترین اونر ایڈیٹر تھے، کم از کم انہوں نے کبھی کسی کارکن کی تنخواہ اور واجبات نہیں دبائے تھے- کارکن کا جو بھی معاوضہ طے ہوتا تھا مہینے کے پہلے پانچ دنوں میں مل جاتا تھا اور جب کبھی کوئی چھوڑ کر گیا تو چوہدری حاکم علی اکائونٹنٹ کو کہتے: بھئی! ایدا حساب کر کے اینوں روانہ کرو-" نظامی صاحب کو جب کبھی کہا جاتا کہ "جی! فلاں بندہ جانا چاہ رہیا اے؟" تو بلا توقف کہتے: "جیڑھا جانا چاہندا اے جاوے، کھپ نہ پاوے-" رمیزہ صاحبہ نے تو تخت نشین ہوتے ہی حد ہی کر دی ہے، ایک تاریخی اخبار، جسے حمید نظامی مرحوم اور پھر مجید نظامی مرحوم نے ایک ایک نکتہ جمع کر کے جوڑا تھا، کو چند برسوں میں چیتھڑے میں بدل کے رکھ دیا، مجید نظامی صاحب کی جولائی 2014 میں رحلت کے آٹھ برسوں میں ادارے کے قیمتی اثاثے بیچ ڈالے اور رقوم مبینہ طور پر حوالہ، ہنڈی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر دیں- بیرون ملک بھائیوں کے توسط سے اربوں روپے انویسٹ کر ڈالے لیکن انہیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم کارکنوں کی تنخواہیں اور واجبات ہی ادا کر دیتیں- ان آٹھ برسوں میں کئی نامور صحافی اور کالم نگار یا تو ادارہ چھوڑنے پر مجبور کر دیئے گئے یا خالی ہاتھ نوائے وقت چھوڑ کر مختلف اداروں میں چلے گئے- جبری ریٹائر منٹ اور جبری برطرفیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے چند ہی برسوں میں پر رونق دفتروں کو بھوت بنگلوں میں بدل کر رکھ دیا- تنخواہوں اور واجبات سے محروم متعدد کارکن بد دعائیں دیتے دیتے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان سے گزر گئے، کئی بیمار پڑ گئے، معذور ہو گئے، نفسیاتی مریض بن گئے لیکن رمیزہ صاحبہ کو ذرا بھی ترس نہیں آیا- متاثرین جھولیاں اٹھا اٹھا کر، دامن پھیلا کر دن رات بد دعائیں دے رہے ہیں، ہمارے بچے گردش دوراں سے گھبرا کر بلکتے ہیں تو ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں، رمیزہ صاحبہ کی بھی بچیاں ہیں، اللہ نہ کرے کبھی وہ اپنی سفاک ماں کے توسط سے ملنے والی بد دعائوں کی زد میں آ کر گرم سرد کا شکار ہو گئیں تو رمیزہ صاحبہ پر کیا گزرے گی- انہیں خوف خدا کرنا چاہیئے ورنہ کسی روز خلق بے نوا کے خدا کی غیرت جاگی تو سب کچھ بھسم ہو جائے گا اور وہ کف افسوس ملتی رہ جائیں گی-
میں نے اپنے نوائے وقت کے اٹھائیس برسوں اور تیرہ سالہ دور ادارت کے مشاہدات اور تجربات کو اپنی کتاب " نوائے وقت ہائی جیکنگ کیس" میں بہ نظر عمیق لکھا ہے، کچھ دنوں سے یہ سلسلہ وار سوشل میڈیا کی نذر کر دیا ہے- اس کے مطالعہ سے دنیا کو پتہ چلے گا کہ بڑے بڑے فرشتوں کی اصل حقیقت کیا ہوتی ہے-
اللہ ہمارے سب محروم نوائے وقتیوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازے اور جو زندہ بچ گئے ہیں انہیں آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے-
آمین ثم آمین
یا رب العالمین
Monday, June 6, 2022
قوم کا محسن نوائے وقت کاقوم کے نام ”کھلاخط“
”میں نوائے وقت ہوں“
میں نے ہر عہد کے فرعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے ۔تاریخ شاہد ہے میں نہ کبھی ڈرا،نہ کبھی جھکااور نہ کبھی بکا۔
”میں نوائے وقت ہوں“
آج میرے رکھوالے محترم حمید نظامی اورمحترم مجید نظامی جس کی قوت بازوپر میں نازاں تھا،منوں مٹی تلے جابسے ہیں۔
”میں نوائے وقت ہوں“
میری قوم کے غیوراورحمیت پسند لوگوں مجھے ایک سفاک عورت کے ہاتھوں بے بسی کی موت سے بچاﺅ۔میں نے عورت کے ہاتھوں نہیں مرنا
”میں نوائے وقت ہوں“
میں نے برصغیرکے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی نجات دلائی۔میں نے قیام پاکستان کی جنگ میں صف اول کاکرداراداکیا۔
”میں نوائے وقت ہوں“
میں نے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت کی آبیاری اورقوم کی رہنمائی کا فریضہ بحسن خوبی اداکیا۔
”میں نوائے وقت ہوں“
1953ءاور1974ءمیں جب تحریک ختم نبوت چلی تو میں ہی تھاجس نے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے حق ختم نبوت کے رہزنوں کو بے نقاب کیا۔جب بہت سے اخبارات مصلحت سے کام لے رہے تھے اس عہد میں نوائے وقت تحریک ختم نبوت کا ہراول دستہ بنا۔میں نے ہر دورمیں ناموس رسالت کی پہرہ داری کی۔
”میں نوائے وقت ہوں“
میں عالم اسلام کے مفادات کامحافظ،پاکستان واہل پاکستان کا محسن اورقوم کی نظریاتی سرحدووں کا نگہبان ہوں۔کیاکوئی غیرت مند قوم اپنے محسن سے یہ سلوک کرتی ہے؟مجھے ایک عورت کے حوالے کردیاگیاہے جو شرعی طورپر میری والی وارث بھی نہیں ہے۔
”میں نوائے وقت ہوں“
میں حمید نظامی کے ہاتھوں لگایاہواپوداہوں ،جس کی آبیاری مجید نظامی نے کی۔اس کے ہزاروں ملازمین نے مجھے اپنے خون پسینے سے تناوردرخت بنایا ۔حمیدنظامی اورمجیدنظامی اللہ کوپیارے ہوگئے۔مجھے بنانے سنوارنے والے ملازمین آج دربدرہیں ۔ان کی حالت زار دیکھی نہیںجاتی ،دل خون کے آنسوروتاہے۔
”میں نوائے وقت ہوں“
حمید نظامی کے بعد مجھے گدھ کی طرح نوچااوربھنبھوراگیا،میرے اثاثے مبینہ طورپر بیرون ملک منتقل کئے۔ آج ایک عورت نے میرے ہاتھ پاﺅں باندھ دیئے ہیں اب وہ مجھے زندہ درگورکرنے کے درپے ہے.
قوم کے غیرت مندوں اٹھو ۔۔مجھے بچالو،،،مجھے بچالو،،،،،
Do sacrifices of #Nawaiwaqt media workers not matter to the Govt, midnight courts?
By Malik Naeem
RIP Naveed
Every passing day brings …
It is hard to write down this heartfelt eulogy for a best friend without it bringing a tear to your eye. A dear friend Naveed Latif, who died on 3rd June 2022-, fighting for the rights of friends and colleagues.
It is even hard to find the exact words to describe our relationship and all the feelings involved in it. Somehow, it was easier to just sit and remember in sketches the days we spent together in The Nation and hard to cry in the dark on losing yet another dear one, like Syed Tahir, Mohammad Shakoor, Maqsood, Usman and not forgetting Anil, Aneesur Rehman...
His jolly nature turned into seriousness all due to the highhandedness of the nawa-I-waqt group administration, which went to such an extent that Naveed and other colleagues including me said it’s enough and their fight for self-awareness and battle for their rights started.
For the next couple of years, we shared several things, we had no secrets, never lied to each other, were always brutally honest and full of respect. But life’s struggle took me away into another world far off from him into my own struggle of life but he stood steadfast and like Anil he remained dedicated for the rights of colleagues and breathed his last under that pressure.
I know he's in a better place now, without illness and pain, but I would miss him rather everyone will miss him. His departure did made us all stronger, but it also made us more emotional and vulnerable than we ever were.
Finally, I must thank you my dear Friend Naveed, for having such an impact on everyone’s life, and making everyone realize their importance. Have a great journey up there, I'm sure we'll meet again. Miss you.
تجھے مان جوش و گرز پہ مجھے ناز زخم بدن پہ ھے
یہی نامہ بر ھے بہار کا جو گلاب میرے کفن پہ ھے
Saturday, June 4, 2022
نوائے وقت ہائی جیکنگ کیس: رمیزہ نے "ابا" کو بھی سڑک پر لا بٹھایا
سعید خاورکے قلم سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار اجی کوئی عام شخص نہیں تھا، نوائے وقت کراچی میں اس کا طوطی بولتا تھا، چھوٹے بڑے سب اسے "ابا" کہتے اور اس کا دل سے احترام کرتے تھے، ابا اظہار کو اس قدر عزت اس کے ذاتی کردار، دلربا شخصیت اور مجید نظامی صاحب کا ذاتی ڈرائیور ہونے کی وجہ سے ملتی تھی- جب اکتوبر 1979 میں نوائے وقت کا کراچی سے اجرا ہوا تو کراچی کی قدیم بستی گزری کا اظہار احمد پہلا شخص تھا جسے مجید نظامی صاحب نے بہ طور ڈرائیور تقرر نامہ جاری کیا- اظہار "اجی" کی سادگی اور کم گوئی مجید نظامی صاحب اور ان کی بیگم کو ایسی بھائی کہ اس کی خدمات اپنی ذات اور مصروفیات تک محدود کر لیں- وہ چند ہی برسوں میں نظامی صاحب اور بیگم صاحبہ کا لاڈلا ہو گیا- پہلی تقرری اور مجید نظامی صاحب کی قربت نے اسے سب کا "ابا" بنا دیا- سب اسے "ابا" کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور وہ خوش دلی اور خندہ پیشانی سے سب کو "جی ابا" کہہ کر جواب دیتا- بلکہ کبھی کبھی تو مجید نظامی صاحب اور بیگم صاحبہ بھی اسے اس کے نام اظہار کی بجائے کنیت "ابا" سے مخاطب کرتے-
مجید نظامی صاحب جب بھی کراچی آتے، اظہار ان کی اور اس کی بیوی بیگم صاحبہ کی دن رات خدمت پر مامور رہتے- یوں اظہار اس بے اولاد دولت مند جوڑے کی دس بارہ سال دل و جان سے خدمت کرتا رہا کہ اچانک ایک روز نظامی صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ نے لاہور سے کراچی آمد پر "ابا" کو ایک نومولود بچی کا سرپرائز دیا- معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ نے اپنے خاندان کی ایک نومولود بچی کو گود لے لیا ہے- بیگم صاحبہ کی ملی بھگت سے منصوبہ سازوں نے یہ بچی یہ کہہ کر نظامی صاحب کو پیش کر دی کہ اس کی وجہ سے آنگن میں گلکاریاں اور خوشیاں پھیلی رہیں گی- نظامی صاحب لے پالک رمیزہ کو اپنا نام اور حسب دان کر دیا تو رمیزہ بٹ رمیزہ نظامی ہو گئی- اظہار "ابا" نے اس نومولود بچی کو برسوں گودوں کھلایا، نظامی صاحب کی یہ لے پالک بچی اپنے ابا اور اماں کی تقلید میں اظہار کو "ابا" ہی کہہ کر پکارنے لگی-
وقت نے کروٹ لی، بچی بڑی ہو گئی اور جب وہ لندن سے گریجوئشن کر کے واپس آئی تو منصوبہ سازوں نے چند ہی برسوں میں نظامی صاحب کو ان کے بھتیجے اور نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم کے صاحب زادے عارف نظامی سے متنفر کر کے اسے ادارے سے چلتا کرایا، دھیرے دھیرے نظامی صاحب کے اربوں روپے کے سارے اثاثے لے پالک رمیزہ کو منتقل کرائے گئے اور پھر آہستہ آہستہ مجید نظامی صاحب کا نوائے وقت گروپ میں کردار ختم کر کے انہیں "نظریہ پاکستان ٹرسٹ" تک محدود کر دیا گیا- یوں مجید نظامی صاحب جیتے جی اپنے ہی ادارے نوائے وقت میں اجنبی ہو کر رہ گئے اور راوی کہتا ہے کہ وہ جب بھی کبھی تھوڑی بہت دیر اپنے دفتر آ کر بیٹھتے، خلائوں میں گھورتے رہتے-
نوائے وقت گروپ کا زوال تو خیر نظامی صاحب کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا کہ جب ان سے چینل، اخبارات، جرائد اور املاک و اثاثے بد نیتی سے ہتھیا کر انہیں عضو معطل بنا دیا گیا تھا لیکن 2014 میں ان کی وفات کے بعد تو یہ تاریخی ادارہ رمیزہ کی مکمل گرفت میں آنے کے بعد ریت کی دیوار ثابت ہوا- مجید نظامی صاحب کے بہی خواہوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ادارہ چھوڑ جائیں اور وفادار ملازموں کو چن چن کر برطرف کیا گیا اور سیکڑوں کارکنوں کو تنخواہیں اور واجبات دیئے بغیر گھر بھیج دیا گیا-
40 سال تک نوائے وقت کی گاڑی کا پہیہ چلانے والا، نظامی صاحب اور بیگم صاحبہ کا خدمت گار اور لے پالک مالکن رمیزہ کو برسوں گودوں کھلانے والا اظہار "ابا" بھی تہی دست سڑک پر آگیا- آج نوائے وقت کا "ابا" لے پالک بیٹی رمیزہ بٹ کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا ہے- وہ بھی احتجاجا متاثرین نوائے وقت کے قافلے میں شریک ہو گیا ہے- "ابا" نے اپنے ہر لبادے پر "متاثرین نوائے وقت" کی مہر چسپاں کر رکھی ہے- اظہار بھائی، اجی، ابا ۔۔۔۔۔ خاطر جمع رکھو، ظلم اور ناانصافی کا سورج غروب ہونے والا ہے، رمیزہ بٹ کا غرور خاک میں ملنے والا ہے، وہ دن دور نہیں کہ جب آپ کو آپ کا حق ملے گا، پائی پائی کا حساب ملے گا- ان شااللہ تعالی
Wednesday, June 1, 2022
یہ تصویر طمانچہ ہے تاریخ کے رخسار پر: سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر نوائے وقت
نوائے وقت کے سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر،سینئر صحافی اورانسان دوست شخصیت محترم سعید خاورصاحب کے قلم سے
ایک زمانہ تھا، ایک عالم نوائے وقت کی حق گوئی اور مجید نظامی مرحوم کی صحافت کا سزاوار تھا- نوائے وقت ایک اخبار نہیں ایک تحریک اور تاریخ تھا جس سے وابستگی پر صحافی اور صحافتی کارکن فخر کیا کرتے تھے- وقت نے کروٹ لی تو نوائے وقت کا زوال شروع ہو گیا، اس تاریخی سفر کے ستر برس بعد پہلے مرحلے میں تو مجید نظامی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے اختیارات سے محروم کر دیئے گئے، پھر ان کی پراسرار موت اور نوائے وقت کے قتل نے ادارے سے وابستہ ہزاروں کارکنوں کو در بہ در کر دیا اور ادارے کے سارے اثاثے ملک سے باہر منتقل کر دیئے گئے، وہ کارکن جو ایک زمانے میں نوائے وقت سے وابستگی پر فخر کیا کرتے تھے آج اپنی تنخواہوں اور واجبات کے حصول کے لیئے اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں- زیر نظر تصویر واجبات سے محروم نوائے وقت اسلام آباد کے ساتھی ہیں جو اپنے معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ احتجاج پر مجبور ہیں،
تاریخ کے اس قضیئے اور ملال پر نہ تو رمیزہ بٹ کو احساس ہے اور نہ حکمرانوں کو کچھ خیال۔
جنرل باجوہ صاحب، جناب چیف جسٹس پاکستان اور جناب وزیر اعظم، سڑکوں پر سرگرداں یہ بچے ہمارے نہیں آپ کے ہیں جو آپ سے اپنا حق مانگتے ہیں- اپنے بچوں کے صدقے آگے بڑھ کر ان بچوں کے سر پر دست شفقت رکھیئے اور انہیں ان کا حق دیجیئے-
رمیزہ صاحبہ! آپ کے بھی بچے ہیں، خدارا ان بچوں کی آہ سے بچو، سڑکوں پر بھٹکتے یہ بچے آپ سے بھیک نہیں اپنا حق مانگتے ہیں، ان بچوں کی فریاد پر فوری کان دھرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور عرش والا خود فرش پر آ کر انصاف کا بول بالا کر دے اور ظالموں اور غاصبوں کو نشان عبرت بنا دے-
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
حامد میر کی بے قراری
Amraiz Khan آج ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں ملک کے ایک بڑے اور متنازعہ صحافی جناب حامد میر صاحب اپنی گرجدار آواز میں صحاف...
-
لاہور(پریس ریلیز)11 اکتوبر2022 پنجا ب یونیں آف جرنلسٹس کے صدرابراہیم لکی ،جنرل سیکرٹری خاوربیگ وایگزیکٹوکونسل نے ”روزنامہ بول “ کے ای...
-
اج 10 اکتوبر بروز پیر متاثرین نوائے وقت گروپ لاہور نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور کے باہر اپنے واجبات کے حق میں مظاہرہ کیا مظاہرے سے قب...
-
متاثرین نوائے وقت گزشتہ تین برسوں سے اپنے قانونی کروڑوں روپے کے واجبات سے تاحال محروم ہیں، گزشتہ سال کی طرح رواں رمضان المبارک میں بھی متا...