Amraiz Kahn ex reporter The Nation
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں مال اور اولاد کو فتنہ کہا جس کے معنی آزمائش اور امتحان کے بھی ہیں۔ انسان اپنی ازدواجی زندگی شروع ہونے کے بعد اللہ سے نیک اور صالح اولاد کی دعا کثرت سے کرتا ہے۔ اور اس دعا کے مانگے جانے کے پیچھے میرے نزدیک تین محرکات ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے نمبر پر تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا حسب نسب قائم رہے کوئی اس کا وارث ہو اس کا نام لیوا ہو۔ نمبر دو وہ اولاد اس لئے بھی مانگتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہو جائے اس کے اعصاب کام کرنا چھوڑ جائیں تو اس کی اولاد اس کا سہارا بنے اور اسے راحت پہنچانے اور تیسرا اور سب سے اہم مقصد کہ جب وہ اس دنیا سے چلا جائے تو اس کی اولاد اپنے اچھے کاموں اور دعاوں کے ذریعے اس کی بخشش کا وسیلہ بنے۔
مجید نظامی مرحوم کو اللہ تعالی نے لاولد رکھا یعنی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی تو موصوف نے اولاد جیسی راحت حاصل کرنے کے لئے ایک بچی کو گود لیا اس کا نام رمیزہ مجید نظامی رکھا اس کو لاڈوں نیازوں پالا پھر اعلی تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجا۔ اپنی تعلیم مکمل کر کے جب یہ خاتون واپس لوٹی تو تب میں نے بھی نیا نیا نوائے وقت گروپ جوائن کیا تھا۔ خالصتا" مشرقی لباس میں ملبوس یہ خاتون جب دی نیشن کے آفس آتی تو پتہ چلتا تھا کہ نظامی صاحب نے اس کی پرورش بہت پیار اور حدود قیود میں کی۔ میرا خود تعلق ایک قبائلی خاندان سے ہے تو مجھے روایتوں والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ مجید نظامی مرحوم نے رمیزہ کو جو پیار اس پرورش کے دوران دیا اس کی جھلک تو اس کی زندگی کے معمولات میں نظر آتی تھی۔ لیکن کچھ معاملات میں تو میں نے مجید صاحب کو حد سے تجاوز کرتے دیکھا اور انہوں نے اس لے پالک بیٹی کی محبت میں اپنے خون کو بھی پیچھے کر دیا۔ مثلا" جب مجید نظامی کے کہنے پر عارف نظامی مرحوم نے رمیزہ کے ساتھ مل کر کام کرنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ آپ میرا تماشہ لگانا چاہتے ہیں تو میں نے مجید نظامی کو یہ کہتے سنا کہ "اس میں تماشہ والی کونسی بات ہے کیا رمیزہ تہمد باندھ کر آفس آتی ہے"۔ قصہ کوتاہ رمیزہ کی محبت میں مجید نظامی اس سے بھی آگے گئے اور اپنے حقیقی وارث، سگے بھتیجے جناب عارف نظامی مرحوم کو اس کے شرعی اور قانونی حق سے مکمل محروم کرتے ہوئے اسے ادارے سے ہی نکال دیا۔ جھوٹے پہ خدا کی لعنت میں نے اپنی
50 سالہ زندگی میں عارف نظامی سے بڑے ظرف والا بندہ نہیں دیکھا۔ میں بہت ساری جگہوں پہ ان کے ساتھ ہوتا تھا میں نے شکوے والا ایک سنگل لفظ عارف نظامی کے منہ سے اپنے چچا کے بارے میں نہیں سنا۔ عارف صاحب کے نوائے وقت سے فارغ ہونے بعد ایک دفعہ ایوان اقبال میں حمید نظامی مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک پروگرام ہونا تھا جس کی صدارت عارف نظامی مرحوم کر رہے تھے۔ میری اس پروگرام کی کوریج کے لئے ڈیوٹی لگی۔ میں پروگرام میں بیٹھا تھا کچھ دانشور حمید نظامی کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے کہ ایک صاحب نے تقریر کرتے کرتے مجید نظامی کے بارے میں بھی کہہ دیا کہ اس نے اپنے بھتیجے کے ساتھ اچھا نہیں کیا تو عارف نظامی اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مقرر کو کہا کہ براہ کرم موضوع پہ رہیں متنازعہ بات نہ کریں۔ مطلب اتنے ظرف والے بھتیجے کو مجید نظامی نے اپنی لے پالک بیٹی کے سامنے نظر انداز کیا۔ اور اس بیٹی کو پیار کے علاوہ بھی سب کچھ دے کر مر گیا لیکن آگے اس بیٹی کی طرف دیکھیں اس نے اپنے باپ کو کیا لوٹایا۔ نہ تو وہ اپنے باپ کے بڑہاپےکا سہارا بنی نہ وہ اس کا ادارہ بچا سکی اور نہ ہی اس نے اپنے باپ ذمہ واجب الادا واجبات قلم مزدوروں کو دے رہی ہے۔ ایسی اولاد اپنے والدین کی بخشش کا وسیلہ تو کیا الٹا اس کے لئے غریب لوگوں کی آہیں اور بدعائیں اکٹھی کر رہی ہے۔ کئی قلم مزدور اپنا حق مانگتے مانگتے اس دنیا سے چلے گئے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ لوگ سڑکوں پہ ہیں مجید نظامی کی روح کو کوس رہے ہیں بدعائیں دے رہے ہیں۔ میرا اس بات پر قوی ایمان ہے آج مجید نظامی قبر میں رمیزہ کو عارف نظامی مرحوم پر ترجیح دینے کے فیصلے پہ ضرور پچھتاتا ہو گا۔
@MaryamNSharif @Nawaiwaqt_ @CMShehbaz @pmln_org @PresPMLNPunjab @OfficialDGISPR @Dr_YasminRashid @TahirulQadri @ArifAlvi